Thursday, April 4, 2013

ایک ملاقات



اThis post was republished to بازیافت at 10:24:41 AM 4/4/2013



  2 اپریل 2013، گلشنِ اقبال ٹاؤن، کراچی یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 3 (مسکن) کے باہر جناب جاذب قریشی سے ہونے والی ملاقات میرے لئے ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔

کافی عرصہ گزر گیا کہ میں جناب جاذب قریشی سے نہیں مل پایا، تب ایک روز ،یکم اپریل 2013 کو ان کا فون آیا، ان کے لہجے پر تھکن غالب تھی، مگر اس کے باوجود  گفتگو کے دوران، مجھے تازیگی کا احساس بار بار چھوتا رہا ،  ایسا لگا کہ وہ اپنی حیران کردینے والی طلسمی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں اوران کا لگایا ہوا شیشے کا درخت مجھ پر سایہ فگن ہے۔

یہاں میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میری جاذب قریشی صاحب سے کوئی ذاتی واقفیت نہیں تھی، مگر ایک اتفاقی ملاقات میں، اپنی کچھ نثری نظمیوں پر ان سےتبادلہ خیال ہوا، ان نظموں کو سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ تم میں شاعری کے روشن امکانات پوشیدہ ہیں ، تم انہیں ضرور تلاش کرو ۔۔۔ اس پہلی ملاقات کے بعد ۔۔۔ ہمارے درمیان ایک رشتہ استوار ہو تا چلا گیا۔ ان کی پہلی کتاب پہچان اور دوسرا شعری مجموعہ شناسائی آج میرے لئے ان سے تعلق کا گہرا استعارہ بن چکے ہیں۔ایک استاد کی صورت وہ میرے لئے شاعری کا دبستان ہیں۔

میرا شخصی نام محمد انور ہے ، مگر انہوں نے میری شاعری اور اظہار کی مختلف جہتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، مجھے میرا شعری نام “اکمل نوید” عطا کیا۔ آج یہ نام میری منفرد پہچان بن چکا ہے، شاعری ، دو دنیاؤں کے درمیا ن ایک طویل سفر ہے، اس سارے سفر میں جناب جاذب قریشی کی رفاقت ایسی کلید کی طرح ہے، جس نے میرے لئے دریافت کے تمام دروازے کھول دئیے ہیں۔ میرے پہلے شعری مجموعہ کا نام انہوں نےدوسرے کنارے پر رکھا ، وہ مجھ سےزیادہ  میری ذات کا ادراک رکھتے ہیں۔

اس ملاقات کو جسے میں اپنی زندہ یادوں کا اہم حصہ قرار دے رہاہوں، اپنی طبعت کی شدید ناسازی کے باوجود، جاذب صاحب نے ایک بار پھر ، اپنی اس بات کا اعادہ کیا کہ میں اپنے شعری امکانات کودریافت کروں، اپنی کچھ نئی تخلیقی کتابیں انہوں نے ، مجھے بڑی محبت کے ساتھ عنایت کیں ، کچھ دیر کے سکوت کے بعد ، انہوں نے کہا کہ وہ کل کڈنی سنٹر میں علاج کے لئے داخل ہورہے ہیں، انہوں نے بڑے یقین کے ساتھ کہا کہ جلد صحتیابی کے بعد ، وہ میری نثری نظموں کتاب دوسرے کنارے پر کی تقریب رونمائی کریں گے۔

میں حیرت زدہ ہوں ۔۔۔ آج کے بے رحم معاشرے کا ہرفرد ، صرف اپنی ذات کی آبیاری کو مقدم رکھتا ہے،   یہ کونسا رشتہ ہے، اور کس پل سے جڑا ہے کہ گزرنے والا ہر وقتنیند کا ریشمبن کر، اسے برباد کرنے کے بجائے آباد کررہا ہے، اندھرے کے سینے میں روشنی کی صلیب اتارنے والےجاذب قریشی، کل کےروشن دن کی خواہش میں ، سورج کو زمین میں بو رہے ہیں- وہ اپنے ہمراہ  پرندوں کی اجلی آوازیں  اور نئے استعاروںکا چہرہ لئے ،  ایک نئی زمین کا خواب ،آسمان سے زمین پر اتارے کے لئے، سیاہ آندھیوں اور بگولوں میں سے گزر رہے ہیں۔

میری ان سے محبت ، اتنی زیادہ اہم نہیں ، بلکہ بہت ہی کمتر ہے، مگر ان کا چہرہ اور بولتی آنکھیں آج میریپہچانبن چکی ہیں، وہ مجھے شناسائی کی پرکھ عطا کررہی ہیں، ان کا یہ ہنر بہت ہی اہم اور معتبر ہے جو میرے شکستہ عکس کو اپنی تخلیقی آواز سے ہم آھنگ کر رہے ہیں 
میرے ہونٹ اور دل کی ہر ڈھرکن، ایک دعا کی صورت ،خدا کی طرف محو سفر ہیں،
اے میرے اللہ ، ان معتبر اور سچے لوگوں کا اعتبار ہمارے درمیا ن سدا قائم رکھ

(امید ہے کہ میری اس دعا میں ، آپ بھی میرے ساتھ ہیں)


   

No comments:

Post a Comment